شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب لکھنوی

  • غزل


رو رہا تھا میں بھری برسات تھی


رو رہا تھا میں بھری برسات تھی
حال کیا کھلتا اندھیری رات تھی

میرے نالوں سے ہے برہم باغباں
یہ خفا ہونے کی کوئی بات تھی

دن نہیں دیکھا سوائے شام ہجر
زندگی بھر میں یہی اک رات تھی

نالہ و آہ و فغاں سے بڑھ گئی
ورنہ الفت اک ذرا سی بات تھی

حشر تک لایا جہاں سے درد دل
کس کو دیتا کیا کوئی سوغات تھی

بند کیں آنکھیں کہ دیکھوں خواب صبح
کھول کر جب آنکھ دیکھا رات تھی

اے صبا غنچوں نے ہنس کر کیا کہا
ان کا قصہ تھا کہ میری بات تھی

اللہ اللہ وحدت شام فراق
ایک میری ایک اس کی ذات تھی

آپ ہی گن دیں مصائب ہجر کے
یوں تو کہنے کے لئے اک رات تھی

ہچکیوں سے راز الفت کھل گیا
آ گئی منہ پر جو دل میں بات تھی

شمع مرقد تجھ سے شکوہ ہے مجھے
میرے گھر میں بھی اندھیری رات تھی

کچھ نہ کچھ ثاقبؔ نے پیدا کر لیا
یہ زمیں تو دشمن ابیات تھی


Leave a comment

+