شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راجیندر منچندا بانی

  • غزل


ہمیں لپکتی ہوا پر سوار لے آئی


ہمیں لپکتی ہوا پر سوار لے آئی
کوئی تو موج تھی دریا کے پار لے آئی

وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے
یہ شب انہیں بھی سر رہ گزار لے آئی

افق سے تا بہ افق پھیلتی بکھرتی گھٹا
گئی رتوں کا چمکتا غبار لے آئی

متاع وعدہ سنبھالے رہو کہ آج بھی شام
وہاں سے ایک نیا انتظار لے آئی

اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی

نہ شب سے دیکھی گئی برگ آخری کی تھکن
کہ بوند اوس سے اس کو اتار لے آئی

میں دیکھتا تھا شفق کی طرف مگر تتلی
پروں پہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی

بہت دنوں سے نہ سوئے تھے ہم اور آج ہوا
کہیں سے نیند کی خوشبو ادھار لے آئی

وہ اک ادا کہ نہ پہچان پائے ہم بانیؔ
ذرا سی بات تھی آفت ہزار لے آئی


Leave a comment

+