شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر خالد

  • غزل


اپنی یہی پہچان، یہی اپنا پتا ہے


اپنی یہی پہچان، یہی اپنا پتا ہے
اک عمر سے یہ سر کسی چوکھٹ پہ جھکا ہے

یوں سحر تخاطب ہے ہر اک سمت کہ فی العصر
کھلتا ہی نہیں کون یہاں کس کا خدا ہے

دروازہ نہیں، بیچ میں دیوار ہے اپنے
اور دستک دیوار سے در کم ہی کھلا ہے

جب جب دل نازک پہ پڑی چوٹ کوئی بھی
کچھ دن تو دھواں دل سے ہر اک لمحہ اٹھا ہے

اس ٹوٹتی بنتی ہوئی دنیا میں ابھی تک
کتنوں کا سہارا تو فقط نام خدا ہے

محسوس کریں سب ہی بیاں ہو نہ کسی سے
اس سادہ و معصوم میں کچھ ایسی ادا ہے

پھل جس پہ نہ تھے، سایہ مگر سب کے لئے تھا
چھتنار شجر اب کے وہ آندھی میں گرا ہے

کیا اور بھی درکار ہے کچھ اس کے سوا بھی
اے شوق طلب تیرے لئے وقت رکا ہے

پروازیٔ افلاک خرد جب ہوئی عاجز
تب دہر پرستوں نے بھی سمجھا کہ خدا ہے

یہ مہر و مروت تو بجا، پھر بھی مرے دوست
ظالم پہ کرم ظلم سے اظہار وفا ہے

اب عالم فانی کی نئی شرحیں بھی سمجھو
جو کوئی نہ پڑھ پایا تھا وہ تم نے پڑھا ہے

یہ سبزہ و گل، چاند ستارے، یہ زمانہ
مل جائے یہ سب بھی، تو حقیقت میں یہ کیا ہے


Leave a comment

+