شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پون کمار

  • غزل


کہیں دریا نہیں ہوتا کہیں صحرا نہیں ہوتا


کہیں دریا نہیں ہوتا کہیں صحرا نہیں ہوتا
ضرورت پر ہماری کوئی بھی اپنا نہیں ہوتا

کہانی ختم ہو جاتی کوئی صدمہ نہیں ہوتا
بچھڑتے وقت وہ چھپ کر اگر رویا نہیں ہوتا

بتاؤ کون سی شے کی کمی ہے میرے پیکر میں
مجھے سمجھاؤ میرا عکس کیوں سمجھا نہیں ہوتا

تمہاری یاد کے سائے میں یوں ہر وقت رہتا ہوں
میں تنہا رہ بھی جاؤں تو کبھی تنہا نہیں ہوتا

محبت میں یہی نظارگی تو لطف دیتی ہے
کوئی کھڑکی نہیں ہوتی کوئی پردہ نہیں ہوتا

تسلی اور دلاسے سب کے سب بے کار جاتے ہیں
نہ جانے کس طرح بکھرا ہوں میں یکجا نہیں ہوتا

اسے تم دھوپ میں برسات میں کہرے میں رکھ دیکھو
پونؔ وہ آئنہ ہے جو کبھی دھندھلا نہیں ہوتا


Leave a comment

+