شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناز خیالوی

  • غزل


پہلے جیسا رنگ بام و در نہیں لگتا مجھے


پہلے جیسا رنگ بام و در نہیں لگتا مجھے
اب تو اپنا گھر بھی اپنا گھر نہیں لگتا مجھے

لگتی ہوگی تجھ کو بھی میری نظر بدلی ہوئی
تیرا پیکر بھی ترا پیکر نہیں لگتا مجھے

کیا کہوں اس زلف سے وابستگی کا فائدہ
اب اندھیری رات میں بھی ڈر نہیں لگتا مجھے

مجھ کو زخمی کر نہیں سکتا کوئی دست ستم
میں ندی کا چاند ہوں پتھر نہیں لگتا مجھے

سنت شاہ امم کا ہوں میں لذت آشنا
خاک سے بہتر کوئی بستر نہیں لگتا مجھے

جب سے دستار فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کی شانوں پہ اپنا سر نہیں لگتا مجھے

ہیں سخنور نازؔ اچھے اور بھی اس دور میں
کوئی دانشؔ کا مگر ہمسر نہیں لگتا مجھے


Leave a comment

+