شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

مبین مرزا

  • غزل


ساتھیو جو عہد باندھا ہے اسے توڑا نہ جائے


ساتھیو جو عہد باندھا ہے اسے توڑا نہ جائے
جسم میں جب تک لہو سے معرکہ ہارا نہ جائے

عہد ماضی میں بھی ہے کوہ ندا جیسا طلسم
یہ بھی وہ آواز ہے مڑ کر جسے دیکھا نہ جائے

اس قدر راس آ گئی ہیں ذات کی ویرانیاں
خود یہ خواہش ہو رہی ہے دل کا سناٹا نہ جائے

اس سے آگے واپسی کا راستہ کوئی نہیں
جو یہاں سے لوٹنا چاہے اسے روکا نہ جائے

جس سے دل وابستہ ہو بے انتہا شدت کے ساتھ
بھول کر بھی اس تعلق کو کبھی پرکھا نہ جائے

یاد اس کی پھر کہیں برسوں نہ آئے اس کے بعد
اتنا جی بھر کے بھی آج اس کے لیے رویا نہ جائے

میرے دکھ سکھ میرے اندر زندہ ہیں سب کی طرح
شہر کے لوگوں سے مجھ کو مختلف سمجھا نہ جائے


Leave a comment

+