شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر بلگرامی

  • غزل


کچھ شمع سے پوچھو نہ شب تار سے پوچھو


کچھ شمع سے پوچھو نہ شب تار سے پوچھو
کیا ہجر میں بیتی یہ دل زار سے پوچھو

سوسن سے نہ کچھ نرگس بیمار سے پوچھو
تاراجیٔ گلشن کا سبب خار سے پوچھو

زحمت نہ دو ایسے میں نہ بیمار سے پوچھو
کیا حال ہے یہ نبض کی رفتار سے پوچھو

کیوں دست حنائی دل آزار سے پوچھو
رنگ گل لالہ لب و رخسار سے پوچھو

یارو سے کرو مشورہ اغیار سے پوچھو
کب تک وہ رہیں گے کھچے تلوار سے پوچھو

کردار سے رفتار سے گفتار سے پوچھو
کیا کون ہے یہ اس کی ہی معیار سے پوچھو

دل سے نہ یہ قربانی و ایثار سے پوچھو
اقدار وفا حسن کے بازار سے پوچھو

ممکن نہیں جو دل میں ہے اس کو نہ اگل دے
دشمن سے بھی اک بار اگر پیار سے پوچھو

آئینۂ احساس خد و خال حسیں ہیں
تاثیر وفا رنگ رخ یار سے پوچھو

رہ رہ کے مزے دیتی ہے کیا کیا خلش زخم
یہ درد محبت کے خریدار سے پوچھو

کہہ اٹھے انا الحق نہیں ہر اک کا کلیجا
اس ظرف کو اہل رسن و دار سے پوچھو

جنت کا جمود اچھا ہے یا کش مکش عشق
یہ جرم محبت کے گنہ گار سے پوچھو

کیوں رنگ اڑا کلیوں کا کیوں چپ ہیں عنادل
گلشن کے جگہدار کے کردار سے پوچھو

کہتے کسے محراب حرم کیا ہے مہ نو
اس شوخ کے یہ ابروئے خم دار سے پوچھو

لاکھوں کا لہو پی کے بھی بے درد ابھی تک
کیوں خون کی پیاسی ہے یہ تلوار سے پوچھو

زنجیر محبت کی اسیری میں ہے کیا لطف
پیچ و خم کاکل کے گرفتار سے پوچھو

دانستہ نہیں بندے سے کوئی ہوئی تقصیر
پھر کس لیے برگشتہ ہیں سرکار سے پوچھو

دل والوں سے بس پوچھو ہے کیا رشتۂ الفت
تسبیح سے پوچھو نہ یہ زنار سے پوچھو

اک اس کے چلے جانے سے کیا حال ہے ماہرؔ
حسرت زدہ گھر کے در و دیوار سے پوچھو


Leave a comment

+