شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر شیرازی

  • غزل


ارض و سما پہ رنگ تھا کیسا اتر گیا


ارض و سما پہ رنگ تھا کیسا اتر گیا
آندھی چلی تو شام کا چہرہ اتر گیا

طوفاں کی زد نہ شور تلاطم مجھے بتاؤ
میں موج میں نہیں ہوں کہ دریا اتر گیا

کیا کیا رہی کنار محبت کی دھن مجھے
جن پانیوں میں اس نے اتارا اتر گیا

اک کشمکش میں اب ہیں سمندر پڑے ہوئے
صحرا کی تہہ میں پھر کوئی پیاسا اتر گیا

بکھرا پڑا ہے خاک پہ یوں چاندنی کا جسم
جیسے مری ہی روح میں تیشہ اتر گیا

جعفرؔ کبھی نہ یہ میرے وہم و گماں میں تھا
میں اور اس کے دھیان سے ایسا اتر گیا


Leave a comment

+