شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید وششٹ

  • غزل


وہ جو داغ عشق تھا خوش نما جو امانت دل زار تھا


وہ جو داغ عشق تھا خوش نما جو امانت دل زار تھا
سر بزم تھا تو چراغ تھا سر راہ تھا تو غبار تھا

اسے میں ہی جانوں ہوں دوستوں کسو وقت اپنا بھی یار تھا
کبھو موم تھا کبھو سنگ تھا کبھو پھول تھا کبھو خار تھا

تری یاد ہے کہ بجھی بجھی ترا ذکر ہے کہ رکا رکا
تری یاد سے تو سکون تھا ترے ذکر سے تو قرار تھا

یہ تو وقت وقت کی بات ہے ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں
وہ ہوں آج ہم سے خفا خفا کبھو ہم سے ان کو بھی پیار تھا

وہ نگر تو کب کا اجڑ گیا ہم اسی نگر سے تو آئے ہیں
کہیں مقبرہ تھا خلوص کا تو کہیں وفا کا مزار تھا

جسے شوق تھا تری دید کا جسے پیاس تھی ترے پیار کی
جو تری گلی میں مقیم تھا وہی اجنبی سر دار تھا

ترے دل سے میرا خلوص دل نہ جھلک سکا تو میں کیا کروں
مرے عکس کی تو خطا نہ تھی ترے آئینے پہ غبار تھا


Leave a comment

+