شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید لکھنوی

  • غزل


دل سوزان عاشق مخزن رنگ وفا ہوگا


دل سوزان عاشق مخزن رنگ وفا ہوگا
وہ حصہ قدر کے قابل ہے جتنا جل گیا ہوگا

چلے تھے درد کو سن کر تھمے یہ کہہ کے رستہ میں
نہ جانا اب مناسب ہے وہ کب کا مر گیا ہوگا

یہ اک بوسے پہ اتنی بحث یہ زیبا نہیں تم کو
نہیں ہے یاد مجھ کو خیر اچھا لے لیا ہوگا

چھڑی تھیں حسن کی بحثیں ادھر چاند اور ادھر تم تھے
کسی کو دیکھ کر بے پردہ کوئی چھپ گیا ہوگا

اندھیرے گھر کی کچھ پروا نہیں ہے تیرہ بختوں کو
تم آؤ قبر پر روشن چراغ نقش پا ہوگا

مروت کی تو صورت بھی نہیں دیکھی ان آنکھوں نے
اگر دھمکاؤں مرنے پر تو کہہ دے گا کہ کیا ہوگا

تماشا جانکنی کا کیوں نہ دیکھا دیکھ تو لیتے
رگیں جتنی کھچی تھیں دم بھی اتنا ہی کھچا ہوگا

تم آؤ دیکھنے والا نہیں کوئی سر مدفن
چراغ قبر افسردہ تھا کب کا بجھ گیا ہوگا

ابھی تو آگ سینے میں کہیں کم ہے کہیں زائد
اگر مل جائیں گے آپس میں سب چھالے تو کیا ہوگا

چمک اٹھی جو میرے زخم دل میں کیا قیامت ہے
فلک پر چاند نکلا ہوگا یا کوئی ہنسا ہوگا

ہمیں سے پوچھ لو کیسے ہو تم اور حسن کیسا ہے
اگر آئینہ کو دم بھر نہ دیکھو گے تو کیا ہوگا

غم فرقت کا کیا شکوہ قیامت آنے والی ہے
خدا کے سامنے آخر تو اک دن سامنا ہوگا

یہی جاویدؔ بہتر ہے کہ اب توبہ سے کر توبہ
وہی چھپ کر پیے گا مے جو تم سا پارسا ہوگا


Leave a comment

+