شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید شاہین

  • غزل


خس بدن میں برنگ شرار آئے کوئی


خس بدن میں برنگ شرار آئے کوئی
چمک اٹھوں میں غم آب دار آئے کوئی

مری نظر میں چمکتے ہیں گرم و سرد جہاں
میں جانچ لوں گا زر کم عیار آئے کوئی

ہے زخم زخم بدن سنگ حرف تلخ سے آج
کہیں سے نرمیٔ لب کی پھوار آئے کوئی

میں جل گیا دل ویراں کی خشک وادی میں
فراز‌ درد سے پھر آبشار آئے کوئی

یہ دشت‌ تشنہ لبی چھوڑ کر میں کیوں جاؤں
مرے لیے تو یہیں جوئے بار آئے کوئی

ہے زعم شعلہ تو دیکھے ہوائے درد کا زور
چراغ ہے تو سر رہ گزار آئے کوئی

اک اور بھی ہے جہاں اس جہان جبر سے دور
مجال ہے تو وہاں شہریار آئے کوئی

غنیم شب کو میں زخموں سے چور کر آیا
سحر کا آخری نیزہ بھی مار آئے کوئی

ٹھہر گئے ہیں کہاں میرے ہم سفر شاہیںؔ
کھڑا ہوں دیر سے جنگل کے پار آئے کوئی


Leave a comment

+