شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید اختر بیدی

  • غزل


نیا موسم در آیا دشت میں برگ و ثمر جاگے


نیا موسم در آیا دشت میں برگ و ثمر جاگے
زمانوں سے جو محو خواب تھے قلب و نظر جاگے

نئے حرفوں کے پھولوں کو سجایا وقت نے لب پر
نئے حرفوں کے پھولوں میں نئے کیف و اثر جاگے

وہ دور آیا صدا ظلم و ستم کے بھی خلاف اٹھی
ہماری اور تری دنیا کے ارباب ہنر جاگے

قیامت کوچہ و بازار میں یوں ہی نہیں آئی
ہم اپنے شہر میں پہلے پس دیوار و در جاگے

سوائے تیرگی حد نظر تک کچھ نہ تھا بیدیؔ
یہ خواہش تھی کہ سینوں میں تمنائے سحر جاگے


Leave a comment

+