نیا موسم در آیا دشت میں برگ و ثمر جاگے
زمانوں سے جو محو خواب تھے قلب و نظر جاگے
نئے حرفوں کے پھولوں کو سجایا وقت نے لب پر
نئے حرفوں کے پھولوں میں نئے کیف و اثر جاگے
وہ دور آیا صدا ظلم و ستم کے بھی خلاف اٹھی
ہماری اور تری دنیا کے ارباب ہنر جاگے
قیامت کوچہ و بازار میں یوں ہی نہیں آئی
ہم اپنے شہر میں پہلے پس دیوار و در جاگے
سوائے تیرگی حد نظر تک کچھ نہ تھا بیدیؔ
یہ خواہش تھی کہ سینوں میں تمنائے سحر جاگے
Leave a comment