شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسن بخت

  • غزل


ذکر تحریم حرم یا جام صہبا کچھ تو ہو


ذکر تحریم حرم یا جام صہبا کچھ تو ہو
روح کی شعلہ مزاجی کا مداوا کچھ تو ہو

داغ دل زخم نظر سوز جگر فکر حیات
ہم تہی دامن سہی نذر تمنا کچھ تو ہو

رہ گزر ویران ہے ہر حادثہ خاموش ہے
اے دل ایذا طلب بحر تماشا کچھ تو ہو

زندگی پھر اپنے مستقبل سے غافل کیوں ہوئی
ساغر امروز میں صہبائے فردا کچھ تو ہو

ہم کسی احساس سے خاموش ہیں ان کے حضور
وہ بہ ضد ہیں ہم سے تشریح تمنا کچھ تو ہو

بے طلب کیسے ملے کیوں کر ملے حسن طلب
زندگی کے ہونٹ پر آخر تقاضا کچھ تو ہو

کس قدر مایوس ہے میرا جنون بے کراں
بختؔ آخر وسعت دامان صحرا کچھ تو ہو


Leave a comment

+