شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسرتؔ عظیم آبادی

  • غزل


کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے


کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
رکھے دل کو مرے ناشاد جتنا اس کا جی چاہے

ہمیں بھی صبر خاطر خواہ داد حق ہے الفت میں
وہ دے جور و جفا کی داد جتنا اس کا جی چاہے

یہ مظلوم محبت داد رس ہرگز نہ پاوے گا
کرے دل داد اور فریاد جتنا اس کا جی چاہے

عدم ہے اور وجود اس مشت پر کا بھی مساوی سا
ستم ہم پر کرے صیاد جتنا اس کا جی چاہے

بلائے ناگہاں گریہ گرفتاری نہیں غافل
وہ ہو غم سے مرے آزاد جتنا اس کا جی چاہے

نہیں ہے سر نوشت اس کی لب جاں بخش شیریں کی
کرے جاں کندنی فرہاد جتنا اس کا جی چاہے

ہمیں حسرتؔ فراموشی بھی اس کی یادگاری ہے
کرے گو ہم کو کمتر یاد جتنا اس کا جی چاہے


Leave a comment

+