شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجازالحق شہاب

  • غزل


پہلے بنتی ہی نہ تھی بات سو اب بنتی ہے


پہلے بنتی ہی نہ تھی بات سو اب بنتی ہے
آج کل ان کے تصور سے غضب بنتی ہے

چلئے چل کر کہیں ڈھونڈے کوئی اجڑی ہوئی رات
اپنی ان چاند ستاروں سے تو کب بنتی ہے

نفس جب روح پہ حاوی ہو تو پھر وحشت میں
تشنگی دیکھیے قربت کا سبب بنتی ہے

سرمئی شام میں سورج کا لہو مل جائے
تب کہیں جا کے مری جان یہ شب بنتی ہے

پھر سنبھالے نہ سنبھلتی ہے اگر بگڑے تو
اور بگاڑے نہ بگڑتی ہے کہ جب بنتی ہے

پہلے پہلے تو کسی کھیل سی لگتی ہے مگر
سر پہ چڑھ جائے محبت تو طلب بنتی ہے

عاشقی حد سے گزرتی ہے تبھی جا کے شہابؔ
قیس و فرہاد کا رانجھے کا لقب بنتی ہے


Leave a comment

+