شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجاز انصاری

  • غزل


اپنے محافظوں سے ہراساں ہے زندگی


اپنے محافظوں سے ہراساں ہے زندگی
اس زندگی کے حال پہ حیراں ہے زندگی

یوں رونما ہوئے مرے حالات میں تضاد
گلشن کبھی تھی آج بیاباں ہے زندگی

اس شخص کا بھی آج مقدر سنور گیا
لکھا تھا جس کے در پہ پریشاں ہے زندگی

گھر بیٹھنے سے مل نہ سکے گا کوئی سراغ
عزم و عمل کی راہ میں پنہاں ہے زندگی

کیوں زندگی کی مجھ کو دعا دے رہے ہیں آپ
میرے لیے تو موت کا ساماں ہے زندگی

دو چار دن میں غم سے ملے گی ہمیں نجات
دو چار دن کی اور یہ مہماں ہے زندگی

اعجازؔ کوئی پوچھنے والا نہیں یہاں
اردو کی طرح بے سر و ساماں ہے زندگی


Leave a comment

+