شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ڈاکٹر اعظم

  • غزل


پر لطف سکوں بخش ہوائیں بھی بہت تھیں


پر لطف سکوں بخش ہوائیں بھی بہت تھیں
گلشن میں تعصب کی وبائیں بھی بہت تھیں

خود میں نے ہی رکھا نہ خیال اپنا کبھی بھی
غیروں کی کچھ اپنوں کی جفائیں بھی بہت تھیں

صورت پہ اجالے تھے اگر شمس و قمر کے
زلفوں کی سیاہی میں گھٹائیں بھی بہت تھیں

تھی عہد جوانی میں محبت ہی محبت
ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھی بہت تھیں

مبہوت تھے مسحور تھے سب دیکھ کے اس کو
شفاف سراپا تھا ادائیں بھی بہت تھیں

ہر وقت مرے ساتھ تھے اسباب تباہی
قسمت تھی خراب اپنی خطائیں بھی بہت تھیں

اک روز قضا لے گئی بیمار کو اعظمؔ
تھے جب کہ مسیحا بھی دوائیں بھی بہت تھیں


Leave a comment

+