شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

داؤد اورنگ آبادی

  • غزل


تیری انکھیاں کے تصور میں سدا مستانہ ہوں


تیری انکھیاں کے تصور میں سدا مستانہ ہوں
دیکھ کر زنجیر تیرے زلف کی دیوانہ ہوں

گاہ سیر بوستاں کرتا ہوں گاہے سیر بزم
گاہ تیرے عشق میں بلبل ہوں گہہ پروانہ ہوں

گاہ مثل برہمن ہوں اے صنم زنار بند
ہات میں زاہد کے گاہے سبحۂ صد دانہ ہوں

کیا ہوا گر ہے دل صد چاک میرا تیرہ بخت
حسن کی زینت ہوں تیرے سرمہ ہوں گر شانہ ہوں

جب سوں ہے اس آشنا کی آشنائی کا خیال
نیں رہا ہوں آپ میں، میں آپ سوں بیگانہ ہوں

گوش رکھ میرا سخن سنتا ہے ہر اہل سخن
جب سوں میں بحر سخن کی سیپ کا دردانہ ہوں

ہے ازل سوں جلوہ پیرا دل میں حب مرتضیٰ
اس سبب داؤدؔ دائم دشمن بت خانہ ہوں


Leave a comment

+