شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بسمل سعیدی

  • غزل


سنا ہے ایک جہاں اس جہاں سے پہلے تھا


سنا ہے ایک جہاں اس جہاں سے پہلے تھا
عجب جہاں تھا اگر آسماں سے پہلے تھا

اگرچہ سجدے ہیں ممنون آستاں لیکن
مذاق سجدہ مجھے آستاں سے پہلے تھا

تمہیں کہو کبھی تم نے سنا تھا خوش ہو کر
تمہارا ذکر جو میرے بیاں سے پہلے تھا

قبول خاطر عشاق ہو کے رہ نہ گیا
ترا فسانہ مری داستاں سے پہلے تھا

نہ شوق رہزنیٔ دل نہ ذوق غارت جاں
عجب طریق مرے کارواں سے پہلے تھا

بہار تھی نہ خزاں برق تھی نہ تھا صیاد
چمن نہ تھا جو مرے آشیاں سے پہلے تھا

اسی جہان کو انکار تھا قیامت کا
یہی جہان جو اک نوجواں سے پہلے تھا

کچھ اس طرح ہے مجھے درد عشق کا احساس
یہ جیسے مجھ کو یوں ہی جسم و جاں سے پہلے تھا

وہ ناز بن کے پھر آخر نیاز ہو کے رہا
انہیں غرور جو میری فغاں سے پہلے تھا

زہے وہ بزم کہ ہوتا ہے روز یہ محسوس
کہ جیسے کوئی تعلق یہاں سے پہلے تھا

ہنوز دل میں اسی شد و مد سے ہے بسملؔ
وہ حوصلہ جو مجھے امتحاں سے پہلے تھا


Leave a comment

+