شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اتل اجنبی

  • غزل


عجب خلوص عجب سادگی سے کرتا ہے


عجب خلوص عجب سادگی سے کرتا ہے
درخت نیکی بڑی خاموشی سے کرتا ہے

میں اس کا دوست ہوں اچھا یہی نہیں کافی
امید اور بھی کچھ دوستی سے کرتا ہے

جواب دینے کو جی چاہتا نہیں اس کو
سوال ویسے بڑی عاجزی سے کرتا ہے

جسے پتہ ہی نہیں شاعری کا فن کیا ہے
وہ کاروبار یہاں شاعری سے کرتا ہے

سمندروں سے لڑے تو اسے پتہ بھی چلے
لڑائی کرتا ہے تو بھی ندی سے کرتا ہے

نئی نہیں ہے یہ اس کی پرانی عادت ہے
شکایتیں ہوں کسی کی کسی سے کرتا ہے

مقابلے کے لیے لوگ اور بھی ہیں مگر
مقابلہ وہ اتل اجنبیؔ سے کرتا ہے


Leave a comment

+