شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حاتم علی مہر

  • غزل


پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا


پوچھے گا جو وہ رشک قمر حال ہمارا
اے مہرؔ چمک جائے گا اقبال ہمارا

سودے میں تری زلف کے لکھتے ہیں جو اشعار
ہوتا ہے سیہ نامۂ اعمال ہمارا

ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید
اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا

ہر بار دکھاتا ہے جنوں خانۂ زنجیر
اس گھر میں گزارا ہوا ہر سال ہمارا

آتے ہی وہ کہتے ہیں کہ جاتے ہیں بس اب ہم
بے چپن ہیں منگوایئے سکھ پال ہمارا

مضموں نہ بندھا موئے کمر کا تو وہ بولے
ٹیڑھا نہ ہوا شاعروں سے بال ہمارا

مہتاب سے کہتا ہے مرا چاند کا ٹکڑا
رخسار ترا صاف ہے یا گال ہمارا

تم عرش ہلاتے ہو قدم رکھ کے زمیں پر
اس چال سے دل ہو گیا پامال ہمارا

اک پل بھی جدا دیدۂ تر سے نہیں ہوتا
اب آنکھ کا پردہ ہوا رومال ہمارا

یاں روح پہ ہوتا ہے اس آواز کا صدمہ
جی لے گا شب وصل میں گھڑیال ہمارا

یاں گنج معانی ہے تو واں سیم و زر اے مہرؔ
دولت وہ بخیلوں کی ہے یہ مال ہمارا


Leave a comment

+