شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراست رضوی

  • غزل


شام ڈھلے اس بزم طرب میں میرا جانا خوب ہوا


شام ڈھلے اس بزم طرب میں میرا جانا خوب ہوا
مجھ کو اچانک سامنے پا کر وہ کتنا محجوب ہوا

دشت ستم میں کتنی صلیبیں استادہ تھیں چار طرف
شاہ کے ہاتھ پہ بیعت کر لی کوئی نہ یاں مصلوب ہوا

رسوائی کے سائے ہمیشہ پیچھا کرتے رہتے ہیں
مجھ سے گریزاں ہو کر بھی وہ مجھ سے ہی منسوب ہوا

کوچۂ یار میں جانا ہو تو ترک انا ہے پہلا قدم
عشق کسی سے کیا کرتا وہ جو اپنا محبوب ہوا

اجڑی جب سے محفل یاراں طور بدل گئے جینے کے
زخم مرا پیراہن ٹھہرا درد مرا اسلوب ہوا

عہد نو کی ایجادوں سے لذت-نامہ بری بھی گئی
شیشے پر کچھ حرف لکھے ہیں یہ کیسا مکتوب ہوا

اپنے عیب پہ چشم زمانہ مشکل ہی سے جاتی ہے
بے چہرہ تھے دیکھنے والے آئینہ معتوب ہوا

رہ گئے کچھ یادوں کے سائے کچھ لفظوں کی روشنیاں
آخر میری عمر کا سورج ڈھلتے ڈھلتے غروب ہوا


Leave a comment

+