شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غزل انصاری

  • غزل


غیروں کی بستیوں میں رہنے کو آ رہے ہیں


غیروں کی بستیوں میں رہنے کو آ رہے ہیں
اس دل کو چھوڑ کر ہم دنیا بنا رہے ہیں

سکھیاں سہیلیاں وہ گزرا جہاں لڑکپن
بیٹھے بٹھائے اب کیوں سب یاد آ رہے ہیں

روزی کی جستجو میں اپنوں کو چھوڑ چلنا
ماضی کے سارے منظر آنکھوں پہ چھا رہے ہیں

روکا تھا سب نے ہم کو لیکن نہ رک سکے ہم
اب اجنبی زمیں کے دکھ راس آ رہے ہیں

آنکھوں پہ چھا رہی ہے برکھا گئے دنوں کی
گزرے دنوں کے قصے پھر دل جلا رہے ہیں

مٹی کی سوندھی خوشبو پھر یاد آ رہی ہے
ملہار وہ رتوں کے خود کو سنا رہے ہیں

خوشیوں سے خود کو کتنی محروم کر لیا ہے
پردیس میں غزلؔ کیوں ہم رنج اٹھا رہے ہیں


Leave a comment

+