شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید جمیل

  • غزل


وہ چاندنی میں کچھ ایسا تھا تر بہ تر تنہا


وہ چاندنی میں کچھ ایسا تھا تر بہ تر تنہا
میں دیکھتا رہا منظر یہ رات بھر تنہا

ہوئی ہے جیسے ابھی تک گزر بسر تنہا
گزار ڈالیں گے باقی کا بھی سفر تنہا

پکارتا ہوں ترا نام جیسے صحرا میں
ہمیشہ آتی ہے آواز لوٹ کر تنہا

عقاب اڑتا ہے جس طرح آسمانوں میں
بلندیوں میں کیا کرتا ہوں سفر تنہا

ہمیشہ رہتا ہے ہم راہ قافلہ اس کے
مصیبت آتی نہیں ہے کسی کے گھر تنہا

وہ منتظر ہے کوئی اس کے سائے میں آئے
کھڑا ہے دور رہ حق پہ اک شجر تنہا

شریک قافلہ ہوتا تو جشن ہو جاتا
ملے تھے خضر سفر تھا مرا مگر تنہا

چلی گئی ہے ترے ساتھ زندگی جاویدؔ
میں ہو گیا ہوں ترے بعد کس قدر تنہا


Leave a comment

+