شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر امروہوی

  • غزل


سوچا تھا تم نے درہم و دینار دیں گے لوگ


سوچا تھا تم نے درہم و دینار دیں گے لوگ
سر کاٹ دیں گے پھر تمہیں دستار دیں گے لوگ

افلاس و تنگ دستی کا اعجاز یہ بھی ہے
مانگو گے گر قلم تمہیں ہتھیار دیں گے لوگ

پہلے پہل تو وصل کی لذت ملے گی اور
پھر عمر بھر کو ہجر کا آزار دیں گے لوگ

مجرم رہا ہوئے ہیں تو معصوم قید ہیں
کس کو خبر تھی ایسی بھی سرکار دیں گے لوگ

سچ بولنا ہے جرم یہ تسلیم ہے مگر
اک جرم کی سزا مجھے سو بار دیں گے لوگ

بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے مار دیں گے لوگ

میں ہی کروں گا شہر کی مٹی کو سرخ رو
میرے ہی خوں سے چھاپ کے اخبار دیں گے لوگ


Leave a comment

+