شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

احسان اکبر

  • غزل


پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے


پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے
روبرو کون تھا جو آئینے حیراں سے لگے

کچھ تھی کم حوصلگی اپنی تھی کچھ بے صبری
کچھ مجھے عشق کے ہنگامے بھی آساں سے لگے

وقت کٹتا رہا تھا عہد حضوری کی فراق
زخم لگتے رہے چاہے کسی عنواں سے لگے

زیست ہم ہار کے بھی ہاتھ ملائیں تجھ سے
اپنے یہ حوصلے شاید تجھے ارزاں سے لگے

زندگی میرے اضافے مجھے واپس کر دے
جھاڑ دے خار جو ناحق ترے داماں سے لگے


Leave a comment

+