شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پروین فنا سید

  • غزل


کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا


کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
ڈوب جاتا بھی تو موجوں نے ابھارا ہوتا

ہم تو ساحل کا تصور بھی مٹا سکتے تھے
لب ساحل سے جو ہلکا سا اشارا ہوتا

تم ہی واقف نہ تھے آداب جفا سے ورنہ
ہم نے ہر ظلم کو ہنس ہنس کے سہارا ہوتا

غم تو خیر اپنا مقدر ہے سو اس کا کیا ذکر
زہر بھی ہم کو بصد شوق گوارا ہوتا

باغباں تیری عنایت کا بھرم کیوں کھلتا
ایک بھی پھول جو گلشن میں ہمارا ہوتا

تم پر اسرار فنا راز بقا کھل جاتے
تم نے ایک بار تو یزداں کو پکارا ہوتا


Leave a comment

+