شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خاطر غزنوی

  • غزل


وا چشم تماشا لب اظہار سلا ہے


وا چشم تماشا لب اظہار سلا ہے
کوئی پس دیوار مجھے دیکھ رہا ہے

مٹی تو مری مر بھی چکی زندہ صدا ہے
میں چپ ہوں مگر درد مرا بول رہا ہے

اشکوں کا ہجوم آج جسے ڈھونڈ رہا ہے
وہ درد کے دریا میں کہیں ڈوب گیا ہے

کیا زہر سا ہر سمت فضاؤں میں گھلا ہے
جو چہرہ بھی دیکھو وہی اترا سا ہوا ہے

اب خون کے اشکوں سے چمن سینچنا ہوگا
بھیگے ہوئے موسم نے یہ پیغام دیا ہے

وا ہونٹوں سے کیا بولوں کہ آنکھیں تو سلی ہیں
صحراؤں میں یاروں نے مجھے چھوڑ دیا ہے

گزری ہوئی کل کے ہوئے سکے سبھی کھوٹے
جو آج کا سکہ ہے وہی قبلہ نما ہے

کب دہلا ہے آفات زمانہ سے مرا دل
طوفانوں کو آنا ہے تو دروازہ کھلا ہے

لوگوں نے تو سورج کی چکا چوند کو پوجا
میں نے تو ترے سائے کو بھی سجدہ کیا ہے


Leave a comment

+