شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

آر پی شوخ

  • غزل


کوہ کن شب تھے رہا شغل سحر ہونے تک


کوہ کن شب تھے رہا شغل سحر ہونے تک
سر پٹکنا اسی دیوار میں در ہونے تک

اس کی عادت تھی مرے خون کو پانی کرنا
رنگ کیا کیا نہ اڑا آنکھ کے تر ہونے تک

اب دوا ہے نہ دعا ہے نہ مسیحا گویا
ہر خدائی تھی مرا خون جگر ہونے تک

عمر بھر پھر سے جدائی کو محبت کہنا
دیکھنا بھی ہے زمانے کی نظر ہونے تک

اپنی آہیں ہی سبک گام نہ ہونے دیں گی
پا بہ زنجیر چلو ختم سفر ہونے تک

شہر کا شہر ہوا اب تو تعاقب میں مرے
تیرا جادو بھی تھا مجھ خاک بسر ہونے تک

یہ تو میں تھا کہ تراشا ہے ہر اک زخم سے پھول
ہاتھ کٹ جاتے ہیں ناخن میں ہنر ہونے تک


Leave a comment

+