شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ساجد حمید

  • غزل


میں چاہتا ہوں کہ ہر شے یہاں سنور جائے


میں چاہتا ہوں کہ ہر شے یہاں سنور جائے
تمہاری روح مری روح میں اتر جائے

وہ اک خیال جو تھوڑا ملال جیسا ہے
ترے قریب سے گزرے اگر نکھر جائے

دہک رہا ہے جو مجھ میں الاؤ برسوں سے
ذرا سا آنکھ میں بھر لے کوئی تو مر جائے

زمانے بھر سے وہ بیگانہ ہو ہی جائے گا
کوئی حیات کی مانند جب مکر جائے

وہ ایک خواب جسے گنگناتا رہتا ہوں
کبھی تو آ کے مری آنکھ میں ٹھہر جائے

پھر اس کے بعد میں سوچوں گا اپنے ہونے کا
جو درمیان ہے لمحہ ذرا نتھر جائے

کبھی حمیدؔ بلائے کبھی اسے ساجدؔ
اکیلا چاند بتاؤ کدھر کدھر جائے


Leave a comment

+