شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بشری زیدی

  • غزل


سواد شام سے ڈرتا ہوا نظر آیا


سواد شام سے ڈرتا ہوا نظر آیا
فروغ مہر بھی مرتا ہوا نظر آیا

نسیم صبح چلی اور فشار رنگ و بو
کہیں قرار نہ کرتا ہوا نظر آیا

زمیں پہ راکھ اڑی جب بھی خیمہ گاہوں کی
افق پہ خون بکھرتا ہوا نظر آیا

ہر ایک پھول دکھائی دیا کمان بدست
ہر ایک خار نکھرتا ہوا نظر آیا

نہ نیند آئی نہ کوئی ستارۂ کم خواب
بلندیوں سے اترتا ہوا نظر آیا

کبھی کبھی تو مری جلوہ گاہ حیرت میں
خود آئنہ بھی سنورتا ہوا نظر آیا

چراغ بجھنے لگے اور میری آنکھوں کو
بدن میں کوئی اترتا ہوا نظر آیا


Leave a comment

+