شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زبیر رضوی

  • غزل


شام ہونے والی تھی جب وہ مجھ سے بچھڑا تھا زندگی کی راہوں میں


شام ہونے والی تھی جب وہ مجھ سے بچھڑا تھا زندگی کی راہوں میں
صبح جب میں جاگا تھا وہ جو مجھ سے بچھڑا تھا سو رہا تھا باہوں میں

میکدے میں سب کے سب جام ہاتھ میں لے کر دوستوں میں بیٹھے تھے
دور لوگ مسجد میں رب کو یاد کرتے تھے دل کی بارگاہوں میں

وہ زمیں کے شہزادے تیر اور کماں لے کر جنگلوں میں پھرتے تھے
اک ہرن جو زخمی تھا دوڑتا ہوا آیا رادھکا کی باہوں میں

ہم پلے چراغوں میں روشنی سے رشتہ تھا نور ہم میں رہتا تھا
چاند لے کے وہ نکلے جن کو ہم نے دیکھا تھا ظلمتوں کی باہوں میں

عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں
زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں

ہم نے عہد وسطی کے سارے تاج داروں کی یادگاریں دیکھی ہیں
تاج سب میں یکتا ہے اور شاہجہاں تنہا سارے بادشاہوں میں


Leave a comment

+