شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاناں ملک

  • غزل


دن کی جانب کبھی اس رات سے رستہ نکلے


دن کی جانب کبھی اس رات سے رستہ نکلے
باغ کی سمت بھی فٹ پاتھ سے رستہ نکلے

شاید اک اور ملاقات کی امید بندھے
اک سر راہ ملاقات سے رستہ نکلے

میں بھی اب ڈھونڈھتی رہتی ہوں بہانے کیا کیا
اس سے کچھ بات کروں بات سے رستہ نکلے

عین ممکن ہے یہ دنیا کا ہو مرکز مری ذات
مجھ تک آئے جو سماوات سے رستہ نکلے

شہر کے رستے کہیں شہر میں کھو جاتے ہیں
شہر کو اب کوئی دیہات سے رستہ نکلے

کھل کے رو لوں تو یہ دیوار ہٹے دوری کی
ابر برسے تو یہ برسات سے رستہ نکلے

مجھ کو اس مات کا افسوس نہیں ہے جاناںؔ
جیت کی سمت جو اس مات سے رستہ نکلے


Leave a comment

+