شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

آرزو لکھنوی

  • غزل


پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا


پھیر جو پڑنا تھا قسمت میں وہ حسب معمول پڑا
خندۂ گل سے اڑا وہ شرارہ خرمن دل پر پھول پڑا

دیکھ ادھر او نیند کے ماتے کس کی اچانک یاد آئی
بیچ سے ٹوٹی ہے انگڑائی ہاتھ اٹھتے ہی جھول پڑا

حسن و عشق کی ان بن کیا ہے دل کے پھنسانے کا پھندا
اپنے ہاتھوں خود آفت میں جا کے یہ نامعقول پڑا

کون کہے قسمت پلٹی یا مت پلٹی سیلانی کی
رستہ کاٹ کے جانے والا آج ادھر بھی بھول پڑا

حال نہیں جینے کے قابل آس نہیں مرنے دیتی
ایڑیاں رگڑے آخر کب تک خاک پر اک مقتول پڑا

جتنے حسن آباد میں پہنچے ہوش و خرد کھو کر پہنچے
مال بھی تو اتنے کا نہیں اب جتنا کچھ محصول پڑا

راہ وفا تھی ٹیڑھی بگڑی تھی ہر گام افتاد نئی
پاؤں کسی کا ٹوٹ گیا اور ہاتھ کسی کا جھول پڑا

باغ میں گلچیں ہے نہ ہے مالی بجلی ہے نہ فلک پہ سحاب
عہد خزاں میں جلا ہے نشیمن آ کے کہاں سے پھول پڑا

پاؤں کی طاقت طاق ہوئی تو بند کی آنکھ اور جا پہنچے
آرزوؔ اس کو خوب کیا کم راستے میں جو طول پڑا


Leave a comment

+