شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

وزیر آغا

  • غزل


سنو اجڑا مکاں اک بد دعا ہے


سنو اجڑا مکاں اک بد دعا ہے
صدا اندر صدا اندر صدا ہے

خزاں اک غم زدہ بیمار عورت
ہوا نے چھین لی جس کی ردا ہے

ستارہ جل بجھا مختار تھا وہ
دیا مجبور تھا جلتا رہا ہے

سر مژگاں ابھر آنا تھا جس کو
کہاں وہ مہرباں تارا گیا ہے

اگی ہیں چار سو باتیں ہی باتیں
عجب سی ہر طرف آواز پا ہے

ہوا اس کو اڑا لے جا کہیں تو
یہ بادل اپنے پر پھیلا رہا ہے

ہے عریانی تو عادت چاندنی کی
اندھیرا بے سبب شرما رہا ہے

ستاروں اور شراروں میں ٹھنی ہے
محبت کی مگر یہ بھی ادا ہے

یہ کیسی آنکھ تھی جو رو پڑی ہے
یہ کیسا خواب تھا جو بجھ گیا ہے

ہوا اب چل پڑی ہے تیری جانب
ہوا کو بادباں راس آ گیا ہے

جو دل میں پھانس تھی سو رہ گئی ہے
یہاں ورنہ سبھی کچھ ہو گیا ہے


Leave a comment

+