شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر جلالوی

  • غزل


یہ روز حشر کا اور شکوۂ وفا کے لئے


یہ روز حشر کا اور شکوۂ وفا کے لئے
خدا کے سامنے تو چپ رہو خدا کے لئے

الٰہی وقت بدل دے مری قضا کے لئے
جو کوستے تھے وہ بیٹھے ہیں اب دعا کے لئے

بھنور سے ناؤ بچے تیرے بس کی بات نہیں
خدا پہ چھوڑ دے اے ناخدا خدا کے لئے

ہمارے واسطے مرنا تو کوئی بات نہیں
مگر تمہیں نہ ملے گا کوئی وفا کے لئے

ہزار بار ملے وہ مگر نصیب کی بات
کبھی زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لئے

کوئی ضرور ہے دیدار آخری میں نقاب
ہزار وقت پڑے ہیں تری حیا کے لئے

مجھے مٹا تو رہے ہو مآل بھی سوچو
خطا معاف ترس جاؤ گے وفا کے لئے

وہ جان کر مجھے تنہا مری نہیں سنتے
کہاں سے لاؤں زمانے کو التجا کے لئے

مرے جلے ہوئے تنکوں کی گرمیاں توبہ
کھلا ہوا ہے گریبان گل ہوا کے لئے

مریض کتنا تھا خوددار جان تک دے دی
مگر زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لئے

وہ ابتدائے محبت وہ احتیاط کلام
بنائے جاتے تھے الفاظ التجا کے لئے

ذرا مریض محبت کو تم بھی دیکھ آؤ
کہ منع کرتے ہیں اب چارہ گر دوا کے لئے

قمرؔ نہیں ہے وفادار خیر یوں ہی سہی
حضور اور کوئی ڈھونڈھ لیں وفا کے لئے

ویڈیو
This video is playing from YouTube Videos
This video is playing from YouTube قمر جلالوی

Leave a comment

+