شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

آر پی شوخ

  • غزل


گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی


گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی
تھی اک نظر پہ معطر ہوا سی لگتی تھی

میں زخم زخم تھا لیکن گلاب ہاتھوں میں
بڑی تھی چوٹ تو لیکن ذرا سی لگتی تھی

وہ ترش گو لب جاں بخش بھی تھا کیا کہئے
کہ تلخ بات بھی اس کی دوا سی لگتی تھی

ستم کو حسن ستم کر گیا وہی ورنہ
یہی تھی زندگی لیکن سزا سی لگتی تھی

مری تڑپ کو سمجھتا تھا اک عبادت وہ
مجھے بھی اس کی محبت دعا سی لگتی تھی

چلو وہ آنکھ میں پانی تو دے گیا ورنہ
یہ سانس اندھے کنویں میں صدا سی لگتی تھی


Leave a comment

+