شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر خالد

  • غزل


دریائے محبت میں موجیں ہیں نہ دھارا ہے


دریائے محبت میں موجیں ہیں نہ دھارا ہے
یوں شوق مراتب نے پستی میں اتارا ہے

اس شہر تغافل میں ہم کس کو کہیں اپنا
وہ شہر جو دنیا میں کہنے کو ہمارا ہے

آنکھوں میں کبھی تھے اب، ہاتھوں میں ہیں بچوں کے
سورج ہے کہ چندا ہے، جگنو ہے کہ تارا ہے

وہ حسن مجسم جب گزرا ہے چمن سے تب
خود اپنا سراپا بھی پھولوں نے سنوارا ہے

آ جاتے ہو کیوں آخر یوں خواب نئے لے کر
اس شہر تذبذب میں کیا ہے جو تمہارا ہے

مرعوب ہوئیں قدریں جب اپنی یہاں، ہم نے
مغرب کے دریچوں سے مشرق کو ابھارا ہے

اب جائیں تو پہچانے شاید ہی وہاں کوئی
وہ دیس جہاں ہم نے اک عرصہ گزارا ہے

نالے تو کہیں آہیں، اک حشر سا ہے ہر سو
ہے کون جو دنیا سے اس طرح سدھارا ہے

ہم رہنے لگے خالدؔ خوابوں کے جزیروں میں
پوچھا تھا کبھی اس نے کیا نام تمہارا ہے


Leave a comment

+