شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر الجعفری

  • غزل


در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں


در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں
آؤ ہم اپنے بزرگوں کے مکاں دیکھ آئیں

آؤ بھیگی ہوئی آنکھوں سے پڑھیں نوحۂ دل
آؤ بکھرے ہوئے رشتوں کا زیاں دیکھ آئیں

ٹوٹا ٹوٹا ہوا دل لے کے پھریں گلیوں میں
کچی مٹی کے کھلونوں کی دکاں دیکھ آئیں

روشنی کے کہیں آثار تو باقی ہوں گے
آؤ پگھلی ہوئی شمعوں کا دھواں دیکھ آئیں

جن درختوں کے تلے رقص صبا ہوتا تھا
سوکھے پتوں کا برسنا بھی وہاں دیکھ آئیں

اب فرشتوں کے سوا کوئی نہ آتا ہوگا
کون دیتا ہے خرابوں میں اذاں دیکھ آئیں

مدتوں بعد مہاجر کی طرح آئے ہیں
روٹھ جائے نہ کھنڈر آؤ میاں دیکھ آئیں


Leave a comment

+