شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر امروہوی

  • غزل


صحرا سے نہ جنگل کی کبھی خاک سے اٹھے


صحرا سے نہ جنگل کی کبھی خاک سے اٹھے
اب کے وہ بگولے خس و خاشاک سے اٹھے

برسے گی وہ آتش کہ جھلس جائیں گے دریا
اک ابر اگر دیدۂ نم ناک سے اٹھے

گو تو نے ہر اک شخص کو مٹی سے بنایا
پر سنگ کے پیکر بھی ترے چاک سے اٹھے

ہے جن کی بلندی پہ خجل اوج ثریا
کچھ ایسے ستارے بھی مری خاک سے اٹھے

اک حبس بلا خیز گراں تھا سو بالآخر
ہم سادہ صفت محفل چالاک سے اٹھے

تجھ جسم کو چھونے کا یہ اعزاز ہے جاناں
خوشبو تری اتری ہوئی پوشاک سے اٹھے

تھی جن سے فلک بوس پہاڑوں کو گرانی
وہ صدمے بھی ناصرؔ دل غم ناک سے اٹھے


Leave a comment

+