شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قمر جلالوی

  • غزل


کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے


کبھی جو آنکھ پہ گیسوئے یار ہوتا ہے
شراب خانے پہ ابر بہار ہوتا ہے

کسی کا غم ہو مرے دل پہ بار ہوتا ہے
اسی کا نام غم روزگار ہوتا ہے

الٰہی خیر ہو ان بے زباں اسیروں کی
قفس کے سامنے ذکر بہار ہوتا ہے

چمن میں ایسے بھی دو چار ہیں چمن والے
کہ جن کو موسم گل ناگوار ہوتا ہے

سوال جام ترے میکدے میں اے ساقی
جواب گردش لیل و نہار ہوتا ہے

ہمیں وفا پہ وفا آج تک نہ راس آئی
انہیں ستم پہ ستم سازگار ہوتا ہے

لبوں پہ آ گیا دم بند ہو چکیں آنکھیں
چلے بھی آؤ کہ ختم انتظار ہوتا ہے

کہاں وہ وصل کی راتیں کہاں یہ ہجر کے دن
خیال گردش لیل و نہار ہوتا ہے

جنوں تو ایک بڑی چیز ہے محبت میں
ذرا سے اشک سے راز آشکار ہوتا ہے

مرے جنازے کو دیکھا تو یاس سے بولے
یہاں پہ آدمی بے اختیار ہوتا ہے

خدا رکھے تمہیں کیا کوئی جور بھول گئے
جو اب تلاش ہمارا مزار ہوتا ہے

ہمارا زور ہے کیا باغباں اٹھا لیں گے
یہ آشیاں جو تجھے ناگوار ہوتا ہے

عجیب کشمکش بحر غم میں دل ہے قمرؔ
نہ ڈوبتا ہے یہ بیڑا نہ پار ہوتا ہے


Leave a comment

+