شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حزیں لدھیانوی

  • غزل


سر تا بہ قدم خون کا جب غازہ لگا ہے


سر تا بہ قدم خون کا جب غازہ لگا ہے
تب زخم کی گہرائی کا اندازہ لگا ہے

یہ رات کا جنگل یہ خموشی یہ اندھیرا
پتہ بھی جو کھڑکا ہے تو آوازہ لگا ہے

معلوم نہیں میرا کھلا دشت کہاں ہے
صحرا کا خلا بھی مجھے دروازہ لگا ہے

احسان یہ کچھ کم تو نہیں گل بدنوں کا
جو زخم ہے سینے پہ گل تازہ لگا ہے

یکجا ہوئے یادوں کے امڈتے ہوئے پیکر
پھر منتشر اپنا مجھے شیرازہ لگا ہے


Leave a comment

+