درختوں پر پرندے بولتے ہیں
نکل گھر سے کہ رستے بولتے ہیں
در و دیوار سے رونق گھروں کی
دلوں کا حال چہرے بولتے ہیں
یوں ہی سینوں سے کب نکلی ہیں آہیں
لگے جب ٹھیس شیشے بولتے ہیں
کوئی بے ساختہ جملہ کبھی تو
یہ سب الفاظ طوطے بولتے ہیں
ابھی تو گل فشانی ہو رہی ہے
یہ دیکھیں کیا وہ آگے بولتے ہیں
گراں اس کی سماعت پر نہ گزرے
سو ہم کتنا سنبھل کے بولتے ہیں
ترا انداز سب کو بھا گیا ہے
ترے لہجے میں سارے بولتے ہیں
ہے ایسا شہر بھی آباد فاروقؔ
ہیں سب خاموش کتبے بولتے ہیں
Leave a comment