شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر امراوتوی

  • غزل


خدا کو بھولے نہ جب تک ہمیں خدا نہ ملا


خدا کو بھولے نہ جب تک ہمیں خدا نہ ملا
یہ مدعا بھی بجز ترک مدعا نہ ملا

قدم قدم پہ نہ کیوں سجدہ ریزیاں کر لوں
حضور حسن یہ موقع ملا ملا نہ ملا

کلیم طور یہ کیوں طور پر گری بجلی
نگاہ ناز کو کیا کوئی با وفا نہ ملا

اڑا کے لے گئی پرواز شوق منزل تک
عدم کی راہ میں کوئی شکستہ پا نہ ملا

قفس میں آئے اجل یا مریں نشیمن میں
دو روزہ زیست کا ہم کو کہیں مزا نہ ملا

جنون شوق کی خودداریاں معاذ اللہ
مزاج داں کوئی قیصرؔ کو رہنما نہ ملا


Leave a comment

+