شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خلش بڑودوی

  • غزل


نہ خط لکھے نہ دیے ان کو تار اب کے برس


نہ خط لکھے نہ دیے ان کو تار اب کے برس
گزر گئی یوں ہی ساری بہار اب کے برس

نہ سوئے رات کو جا کر کھلی ہوئی چھت پر
کیے نہ ہم نے ستارے شمار اب کے برس

گزشتہ سال بھی دل بے قرار تھا لیکن
عجیب طرح کی الجھن ہے یار اب کے برس

کسی بھی لب پہ تبسم کے گل نہیں مہکے
کسی بھی آنکھ سے چھلکا نہ پیار اب کے برس

یہ رنگ کیوں نہیں جچتے مری نگاہوں میں
یہ پھول کیوں مجھے لگتے ہیں خار اب کے برس

نہ جانے کس طرح لوگوں کے دن گزرتے ہیں
کسی کے رخ پہ نہیں ہے نکھار اب کے برس

کرو گے کیسے خلشؔ اپنی بے کلی کا علاج
شراب میں بھی نہیں ہے خمار اب کے برس


Leave a comment

+