زبیر شفائی
- غزل
- طلسماتی فضا تخت سلیماں پر لئے جانا
- جبیں سے ناخن پا تک دکھائی کیوں نہیں دیتا
- سر کبھی گردن کبھی رخسار سہلاتا رہا
- اٹھا کر برق و باراں سے نظر منجدھار پر رکھنا
- فصل کی جلوہ گری دیکھتا ہوں
- چاروں طرف ہیں خار و خس دشت میں گھر ہے باغ سا
- تیز ہو جائیں ہوائیں تو بگولا ہو جاؤں
- قمر گزیدہ نظر سے ہالہ کہاں سے آیا