شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زکریا شاذ

  • غزل


کہاں دن رات میں رکھا ہوا ہوں


کہاں دن رات میں رکھا ہوا ہوں
عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں

تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا
میں ان خدشات میں رکھا ہوا ہوں

کبھی آتا نہیں تھا ہاتھ اپنے
اب اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہوں

ذرا بھی رہ نہیں سکتا ہوں جن میں
میں ان جذبات میں رکھا ہوا ہوں

جلائے کس طرح یہ دھوپ مجھ کو
کہیں برسات میں رکھا ہوا ہوں

خموشی کہہ رہی ہے شاذؔ اس کی
میں اس کی بات میں رکھا ہوا ہوں


Leave a comment

+