آرزوئیں نہ چھین خواب نہ چھین
میرا سامان اضطراب نہ چھین
سر سے امید کا سحاب نہ چھین
میں کہ صحرا میں ہوں سراب نہ چھین
ہجر بے چینی بے بسی گریہ
یہ محبت کا ہے نصاب نہ چھین
زخم دل کی نہ چارہ سازی کر
میرے سینے کا ماہتاب نہ چھین
تاکنے دے حسین چہروں کو
یار مجھ سے مرا شباب نہ چھین
ختم ہونے نہ دے سیاہیٔ غم
میرے لفظوں کی آب و تاب نہ چھین
درد ماروں کے درد لکھنے دے
ہے یہی اک رہ ثواب نہ چھین
کھوجنا ہے مجھے خدا کا سراغ
واعظا ہاتھ سے کتاب نہ چھین
Leave a comment