شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زعیم رشید

  • غزل


یہ بات اب کے اسے بتانا نہیں پڑے گی


یہ بات اب کے اسے بتانا نہیں پڑے گی
غزل کو ہرگز غزل سنانا نہیں پڑے گی

جو وہ ملا تو میں خرچ کر دوں گا ایک پل میں
بدن کی خوشبو مجھے بچانا نہیں پڑے گی

تجھے بیاہوں تو دو قبیلے قریب ہوں گے
کسی کو بندوق بھی اٹھانا نہیں پڑے گی

میں اپنے لہجے کا ہاتھ تھامے نکل پڑا ہوں
کسی کو آواز بھی لگانا نہیں پڑے گی

میں اپنی ہر اک سیاہ بختی کو جانتا ہوں
زعیمؔ طوطے کو فال اٹھانا نہیں پڑے گی

ویڈیو
This video is playing from YouTube Videos
This video is playing from YouTube زعیم رشید

Leave a comment

+