شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذوالفقار نقوی

  • غزل


مجھ کو تیری چاہت زندہ رکھتی ہے


مجھ کو تیری چاہت زندہ رکھتی ہے
اور تجھے یہ حالت زندہ رکھتی ہے

ڈھو ڈھو کر ہر روز جسے تھک جاتا ہوں
اس ساماں کی سنگت زندہ رکھتی ہے

سورج نے تیزاب ہے چھڑکا شاخوں پر
گلشن کو کیا رنگت زندہ رکھتی ہے

چڑھتے سورج کی میں پوجا کرتا ہوں
یار یہی اک خصلت زندہ رکھتی ہے

چوم کے ہاتھوں کی ریکھائیں سوتا ہوں
خوابوں کی یہ دولت زندہ رکھتی ہے

پل دو پل آنگن میں تیرے رہتا ہوں
ایک یہی تو فرصت زندہ رکھتی ہے


Leave a comment

+